Custom Search

op

Older Posts newer Posts

وزیرستان آپریشن - امریکہ پاکستان میں جگہ جگہ آگ لگانے میں کیسے کامیاب ہوا؟

(تحریر: نوید بٹ)

لال مسجد، سوات اور خیبر ایجنسی کے فوجی آپریشنوں کے بعد امریکہ آج ایک بار پھر حکومتِ پاکستان کی مدد سے وزیرستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے۔ جبکہ عوام تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو اس آپریشن کو امریکی آپریشن سمجھتے ہیں، دوسرے وہ جو اس آپریشن کو پاکستان کے مفادات کی جنگ قرار دیتے ہیں اور ایک خاطر خواہ تعداد ان مسلمانوں کی ہے جو مسلمان فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل پر پریشان ہیں مگر حکومتی پروپیگنڈے کی وجہ سے تذبذب کا شکار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ امت کی اسی تقسیم اور کنفیوژن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استعماری امریکہ اور اس کے ایجنٹ حکمران اس فتنے کی جنگ کو ایک کے بعد دوسرے علاقے کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس آگ کو بجھانے کے لئے ضروری ہے کہ امت کے سامنے گزشتہ چند سالوں پر محیط امریکی منصوبوں اور پاکستان کے حکمرانوں کی غداری کو بے نقاب کیا جائے۔ صرف اسی صورت میں امت یکسو ہو کر امریکہ کو خطے سے نکالنے کے لئے متحرک ہو سکتی ہے۔

11 ستمبر کے بعد افغانستان پر حملے کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کے لئے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا تھا۔ پاک فوج کو مشرقی سرحد سے نکال کر مغربی سرحدوں پر تعینات کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ مشرف نے امریکہ کی چوکیداری پر مامور فوج کو استعمال کر کے افغانستان سے بچ نکلنے والے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کو فروخت کرنا شروع کر دیا۔ مشرف کے گھٹیا امریکی ایجنٹ ہونے کی انتہا تو یہ ہے کہ امریکہ کو درکار مسلمانوں کی بیویوں اور بچوں تک کی قیمت لگائی گئی اور مسلمانوں کی حمیت اور غیرت کا جنازہ نکال دیا گیا۔ اور آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی کئی عفت مآب بیٹیاں امریکی بھیڑیوں کے قبضے میں ہیں۔

امریکہ جانتا تھا کہ وہ افغانستان میں فیصلہ کن فتح اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک پاکستان بالخصوص قبائلی علاقوں کے مسلمان اپنے افغانی بھائیوں کی پشت پر کھڑے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں وہ اس کا مظاہر ہ دیکھ چکا تھا۔ امریکہ یہ بھی جانتا تھا کہ پاک افغان سرحدی علاقے پر نہ توباڑ لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی طویل خندق کھودی جاسکتی ہے جو پاکستان کے مسلمانوں کو سرحد پار کر کے قابض امریکی افواج کے خلاف جہاد سے روک سکے۔ ایسے میں امریکی پالیسی سازوں نے ایک خبیث منصوبہ تیار کیا کہ پاکستان کے اندر قبائلی علاقے میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائی جائے تاکہ پاکستان سے افغانستان جانے والے مسلمانوں کی تعداد کو کم کیا جائے۔ نیز پاکستان کے جذبہ جہاد سے سرشار مسلمانوں کو پاکستانی فوج کے خلاف مصروف کر کے ایک تیر سے دو شکار کیے جائیں۔ یعنی اس طرح افغانستان میں بزدل امریکی فوجیوں کو تحفظ مل جائے گا جو خطے میں جاری مزاحمت کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں اور پاکستان ہی کے لوگوں کو فوج سے لڑا کر پاکستان کی مسلمان فوج کو کمزور کیا جائے اور یوں فوج کو اپنی اصل ذمہ داری یعنی خطے سے امریکی انخلاء اور اسلام کے نفاذ کے لئے مدد و نصرت فراہم کرنے سے بھی دور کر دیا جائے۔ اسی لئے امریکہ نے پاکستانی حکومت اور قبائلیوں کے درمیان 24 اپریل 2004 کو ہونے والے شکئی امن معاہدے کو سبو تاژ کیا اور نیک محمد کو ایک میزائل حملے میں 18 جون 2004 کو شہید کر دیا تاکہ فوج اور قبائلی آپس میں لڑتے رہیں۔

اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مشرف کے دور میں ہی قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن آغاز کر دیا گیا تھا۔ اور اس فوجی آپریشن کے متعلق اس وقت کے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاول نے 10 جنوری 2004 کوکہا تھا: ”میں اس بات پر خوش ہوں کہ ہماری تحریک پر مشرف نے اس علاقے میں نئے ملٹری آپریشن کا آغاز کیا...ہم نے پاکستان پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اس (قبائلی) علاقے کو قابو میں لانے کے لیے تمام تر کوششیں صرف کرے“۔ چنانچہ انگریزوں کی ناکام جنگی مہم کے بعد پہلی دفعہ قبائلی علاقے میں فوج کشی کی گئی۔ چونکہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے کی کوئی قابلِ قبول دلیل موجود نہ تھی چنانچہ حکومت نے ازبک، تاجک اور عرب ”غیر ملکیوں“ کے خلاف آپریشن کے نام پر قبائلی علاقے میں لشکر کشی شروع کی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی جنگ کے خاتمے کے کئی سال گزر جانے کے بعد بھی اگر اس علاقے میں ازبک اور عرب مجاہدین موجود تھے تو اس تمام تر عرصے کے دوران پاکستان کو ان سے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے امریکہ کے افغانستان پر حملے سے قبل ان ”غیر ملکیوں“ کے بارے میں نہ تو کوئی سنگین بات سنی اور نہ ہی کبھی پاکستان کی حکومت نے انہیں خطرہ قرار دیا۔ اور پاکستان کے عوام بھی ازبک، تاجک اور عرب قومیت پر مبنی تقسیم کو اسلام کے خلاف سمجھتے تھے، ان کے نظر میں یہ مسلمان قابلِ قدر تھے کیونکہ انہوں نے روس کے خلاف جہاد کے لیے اپنے علاقوں کو چھوڑا تھا اور اپنے خونی رشتے کو قربان کیا تھا۔ لہٰذا مشرف حکومت کی توجیہ پاکستان کے عوام اور پاکستانی فوج کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ ان لوگوں کے غیر پاکستانی ہونے کے علاوہ حکومت کی طرف سے دوسری توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ ”دہشت گرد “سرحد پار کر کے افغانستان جاتے ہیں اور امریکہ کے خلاف لڑ کر ہمارے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس دلیل نے عوام کے سامنے حقیقی مسئلے کو آشکار کر دیا یعنی آپریشن کا اصل مقصد مجاہدین کی نقل و حمل، رسد اور امداد کاٹ کر افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کو مسلمانوں کی طرف سے جاری مزاحمت سے تحفظ فراہم کرنا تھانہ کہ ان "غیر ملکیوں" کے خلاف محض اس وجہ سے آپریشن کرنا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ لیکن عوام کی نظر میں قبائلی علاقے میں ”غیر ملکیوں“ کی موجودگی یا ان کا افغانستان میں جا کر کافر صلیبیوں کے خلاف لڑنا کوئی جرم نہ تھا، بلکہ وہ اسے جہاد سمجھتے تھے اور نہ ہی وہ اس بات کے لیے تیار تھے کہ امریکہ کے خبیث منصوبے کی خاطر پاک فوج کو قبائلی علاقے میں مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے روانہ کیا جائے۔ پس اس امریکی جنگ کے لئے پاکستان کے عوام میں کسی قسم کا کوئی نرم گوشہ موجودنہ تھا اور پاکستان کے تقریباً تمام مسلمان ہی اس جنگ کو امریکی جنگ قرار دیتے تھے۔

چنانچہ 2004ء کے فوجی آپریشن میں فوج کو نہ صرف قبائلیوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پاکستانی عوام، میڈیا، دانشور اور سیاسی ماہرین کی اکثریت نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف خود پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے اپنے ہی قبائلی بھائیوں کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ صرف ایک آپریشن کے دوران وزیرستان میں فوجی افسروں سمیت 200 سے زائد فوجی جوانوں نے ہتھیار ڈالے۔ میڈیا میں اسلام پسند افسروں کا قبائلی علاقے میں جانے سے انکار اور ان کے کورٹ مارشل کی خبریں اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ عوامی ردعمل اور فوج میں بددلی اس خطرناک حد تک بڑھ گئی کہ امریکہ اور حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی پڑی۔ امریکہ جان چکا تھا کہ وہ قبائلی علاقوں میں جہاد پسند مسلح عوام کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اس جنگ کے حق میں پاکستان کے عوام میں رائے عامہ موجود نہ ہو اور پاک فوج کے جوان بھی اس کے لئے جوش و جذبے سے لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ نیز وہ یہ بھی جانتا تھا کہ پاک فوج کے جوان اس وقت تک لڑنے کے لئے تیار نہیں ہونگے جب تک کہ انہیں کوئی ایسا جواز فراہم نہ کیا جائے جو ان کے اسلامی جذبات اور ملکی دفاع کی ٹریننگ سے ہم آہنگ ہو۔ اس ضمن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگلے فوجی آپریشن سے قبل عوام اور فوج میں اس امریکی جنگ کے لئے رائے عامہ ہموار کی جائے۔ نیز پاکستان کے عوام سے یہ بھی منوایا جائے کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔ چنانچہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے امریکہ نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر درج ذیل گھٹیا اسالیب اپنائے۔

مزاحمتی گروپوں میں ایجنٹ داخل کرکے امریکہ کے خلاف جاری مزاحمت کو بدنام کرنا:

جہاں تک عوامی سطح پر مزاحمت کاروں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا تعلق ہے تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹوں کو قبائلی مزاحمت کاروں میں شامل (infiltrate) کرنا شروع کر دیا اور طالبان میں شامل چند عناصر کو استعمال کرنا شروع کر دیا کہ جن سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں کئی سال قبل ہی پاکستانی ایجنسیوں کے ذریعے تعلق قائم کر چکی تھیں۔ اور ان ایجنٹوں کے ذریعے ایسے کام کرائے گئے جس سے یہ مزاحمت کار عوام میں غیر مقبول ہو گئے اور پھر ان عسکریت پسندوں کو آڑ بنا کر خطے کے لوگوں پر جنگ مسلط کرنا امریکہ اور حکومت کے لئے آسان ہو گیا۔ اسکولوں کو بموں سے اڑانا، عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے سے روکنا، فوجی افسروں کی گردنیں کاٹنا، پولیس اور ایف سی کی چوکیوں پر حملے کرنا، مزارات کو بموں سے اڑانا اور عورت کو بغیر شرعی وجہ کے کوڑے مارنا اور اس طرح کے دیگر واقعات یا ایسے واقعات کی جھوٹی خبروں نے ایسا ماحول پیدا کیا کہ جس کے بعد امریکہ کے لئے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے پاکستانی فوج کو متحرک کرنا بالکل دشوار نہ رہا۔ نیز اس امریکی ”کار خیر“ میں پاکستان کے ”آزاد“ میڈیا نے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔

ریاستی عملداری کو چیلنج کرنے کا بہانہ:

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی وجہ جسے بنیاد بنا کر حکومت آپریشن کے لئے رائے عامہ بناتی رہی وہ ریاستی عملداری (writ of the state) کو چیلنج کرنے کا بہانہ تھا۔ اس کی حقیقت بھی یہ ہے کہ حکومت پہلے عسکریت پسندوں کو خود ہی کھلا چھوڑ دیتی ہے کہ وہ اس نام نہاد"رِٹ آف دی سٹیٹ" کو پامال کریں۔ اور پھر میڈیا میں اچھی طرح اُچھال کر اور اپنی پروردہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے مظاہرے اور بیانات دلوا کر ایسا ماحول بناتی ہے کہ گویا اب حکومت پر آپریشن کرنے کے لئے دبا اس قدر بڑھ چکا ہے کہ مجبوراً اسے یہ قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لال مسجد اور سوات آپریشن اس کی واضح مثال ہیں۔ چنانچہ ایک طویل عرصے تک حکومت عسکریت پسندوں کو ریڈیو سٹیشن چلانے, چیک پوائنٹس قائم کرنے اور ریکروٹ کرنے کی اجازت دیتی رہی۔ مالاکنڈ کے کمشنر سید محمد جاوید سے متعلق میڈیا رپورٹس اس کی ایک اور مثال ہے, جب اس نے عسکریت پسندوں کے آنے سے قبل ہی تمام پولیس کو بونیر کے علاقے سے باہر نکل جانے اور تھانے خالی کرنے کا حکم دے دیا تاکہ عسکریت پسندوں کو علاقے پر قبضہ کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میڈیا میں بھانڈا پھوٹنے کے بعد حکومت کو مجبوراً اس کمشنر کو قید کرنا پڑا لیکن سوات آپریشن کے مکمل ہو جانے کے بعد حکومت نے کمشنر مالاکنڈ کو 8 اکتوبر کو بغیر سزا دیے خاموشی سے رہا کر دیا۔ یہی معاملہ لال مسجد آپریشن کا ہے جب اعجاز الحق سمیت چند حکومتی اہلکاروں نے "ڈبل ایجنٹ" کا کردار ادا کیا اور انہیں ایسے اقدامات کرنے پر ورغلایا جس کے بعد مشرف کے لئے ان کے خلاف آپریشن کرنا نہایت آسان ہوگیا۔

فوج کو آپریشن پرآمادہ کرنے کے لیے بھارتی مداخلت کا پروپیگنڈا:

جہاں تک فوج میں امریکی جنگ کے لئے رائے عامہ بنانے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں فوجیوں میں مختلف ویڈیو فلموں کے ذریعے قبائلیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی جس میں فوجیوں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ نیز یہ خبر بھی خوب پھیلائی گئی کہ بھارتی فوجی اوربھارتی ایجنسیاں مزاحمت کاروں میں شامل ہو چکے ہیں اور انہیں پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اس لئے کیا گیا تاکہ پاک فوج کا جوان اس دلی اطمینان سے گولہ باری کرے کہ وہ ان مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کر رہا جو امریکہ کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ان بھٹکے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ”جہاد“ کر رہا ہے جو بھارت کے ایجنٹ ہیں اور انہیں صرف بندوق کے ذریعے ہی ”راہ راست“ پر لایا جاسکتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ آیا بھارتی کارندے خطے میں موجود ہیں یا نہیں سوال یہ پوچھا جانا چاہئے تھا کہ آخر بھارتی خفیہ ایجنٹ گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران قبائلیوں کو ورغلانے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکی؟ وہ خطے میں امریکہ کے آنے سے قبل قبائلیوں سے خودکش بم دھماکے کیوں نہ کروا سکی؟ یقینا یہ امریکہ ہی ہے جس نے خطے کے دروازوں کو بھارت کے لیے کھولا ہے۔ ایسے میں بجائے یہ کہ اصل وجہ یعنی امریکہ کو خطے سے نکالنے کی سعی کی جاتی، حکومت اپنے ہی قبائلی بھائیوں کے خلاف نبرد آزما ہو گئی۔ اورکسی نے یہ پوچھنے کی بھی جسارت نہ کی کہ اگر پاکستانی فوج بھارتی ایجنٹوں کے خلاف ہی لڑ رہی ہے تو آخر امریکہ کیوں ہمیں اپنے حلیف بھارت کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ، بارود اور ہیلی کاپٹر فراہم کر رہا ہے؟ آخر اگر قبائلیوں سے لڑنا ہماری جنگ ہے تو پھر تمام فوجی آپریشن کا خرچہ ہمارے بجائے امریکی پینٹاگون کیوں بخوشی برداشت کر رہا ہے کہ جس کی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے؟ ان سوالات پر غور کرنے والا اس امریکی سازش کو بڑی آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ دراصل امریکہ نے پاک فوج کے لئے بھارت کو بطورِ دشمن پیش کیا تاکہ ہمارے فوجی بلا جھجک جنگ لڑ سکیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوئے ان کے اسلامی جذبات آڑے نہ آئیں۔ پاکستانی حکومت اس سازش کا حصہ ہے, اسی لئے عوامی رائے عامہ کو آپریشن کے حق میں رکھنے کے لئے حکومت بھارتی مداخلت کا کارڈ استعمال کرتی ہے، جبکہ اس ”مداخلت“ کے حقیقی خاتمے کے لیے وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھاتی، حتی کہ وہ اس ”مداخلت“ کو کسی عالمی فورم پر بھی نہیں اٹھاتی اور نہ ہی آج تک پکڑے گئے ”بھارتی فوجیوں“ کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ "بھارت کا کارڈ" درحقیقت داخلی رائے عامہ (internal consumption) کے لئے ہے اسی لیے اسے سفارتی سطح پر نہیں اٹھایا جاتا۔

پے درپے بم دھماکوں اور حملوں کا خبیث حربہ:

اب جہاں تک عوام کو اس بات پر قائل کرنے کا تعلق ہے کہ دہشت گردی کی جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ ہماری اپنی جنگ ہے تو اس کے لئے امریکہ نے بم دھماکوں کی مدد سے پورے پاکستان کو میدان جنگ بنا دیا۔ نیز کبھی سکول بند کر کے اور جگہ جگہ ناکے لگا کر لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی اور انہیں بار بار یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب کچھ قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی وجہ سے ہے تاکہ عوام اس امریکی جنگ کو چار و ناچار اپنی جنگ سمجھ کر قبول کر لیں۔ ان بم دھماکوں کے لئے ایک طرف تو امریکہ کے پاس چند طالبان عناصر میں اپنے ایجنٹ موجود ہیں جو لال مسجد، سوات، اور قبائلی علاقوں کے متاثرہ خاندانوں کے نوجوانوں کو ریکروٹ کرتے اور مجاہدین کو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے کی بجائے پاکستانی افواج اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنانے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف امریکہ کے پاس بلیک واٹر اور ڈائن کارپ کے تازہ دم کرائے کے قاتل بھی ہیں جو حکومتی سرپرستی میں بے خوف و خطر دندناتے پھر رہے تھے۔ اور ان کے لئے کسی بھی جگہ جانے اور کہیں پر بم نصب کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اگر پکڑے جاتے ہیں تو محض ایک فون کال پر تھانے سے باہر آ جاتے ہیں۔ جیسا کہ اسلام آباد میں چار امریکی افغانیوں کا بھیس دھارے ہوئے اسلحہ اور کیمروں سمیت گرفتار کئے گئے جو ایک جعلی نمبر پلیٹ کی گاڑی پر سوار تھے۔ لیکن چند ہی منٹ بعد انہیں امریکی ایماء پر رہا کر دیا گیا۔ اسی طرح حکومتِ پاکستان کی سرپرستی میں اسلام آباد سے چند کلو میٹر دور سہالہ پولیس ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کو امریکی دہشت گردی میں استعمال ہونے والے بارود کے ڈپو میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ انسٹیٹیوٹ کے کمانڈینٹ نے میڈیا کو بیان دیا کہ وہ اپنے ہی ٹریننگ سنٹر کے مخصوص حصوں میں امریکی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ان بم دھماکوں اور حملوں میں پسِ پردہ امریکی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ پشاور میں امریکی بلیک واٹر اور ڈائن کارپ کے دفاتر کی بجائے عورتوں اور بچوں کے بازار میں دھماکہ کر کے معصوم مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں موجود امریکی سکولوں اور مغربی ثقافت کو فروغ دینے والے اداروں کی بجائے اسلامی یونیورسٹی کے شریعہ ڈپارٹمنٹ میں بم دھماکہ ہوتا ہے, اور امریکی اسلام کو فروغ دینے والے نام نہاد سکالرز، جو میڈیا پر آ کر کھلم کھلااسلام کی دھجیاں بکھیرتے ہیں، کی بجائے ان علما کو قتل کیا جاتا ہے جو امریکی تسلط کے خلاف ہیں اور امت کو اسلام کے تحفظ کی بنیاد پر اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔

یہ حکومتی دعویٰ کہ امریکہ کاساتھ دینا ہی وقت کا تقاضا ہے:

امریکہ کی جنگ کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے حکومت کا ایک اور حربہ نام نہاد مفکرین کے ذریعے یہ تاثر دینا ہے کہ امریکی امداد کے بغیر ہم اپنی معیشت نہیں چلا سکتے اور نہ ہی پاکستان امریکہ کو خطے سے نہیں نکال سکتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو خطے سے نکالنا ایٹمی پاکستان کے لئے دشوار نہیں۔ یہ وہی بزدل امریکی ہیں جو افغانستان اور عراق میں قلیل اسلحہ رکھنے والے مجاہدین سے مار کھا رہے ہیں اور امریکہ کے ہسپتال اپاہج امریکی فوجیوں سے بھر چکے ہیں۔ امریکی معیشت اربوں ڈالر پمپ کرنے کے باوجود بدستور بحران میں مبتلا ہے اور وہ اس وقت ایک فوجی پر سالانہ ایک ملین ڈالر خرچ کر رہے ہیں جو اس کے خزانے پر بوجھ ہے۔ امریکی رسد کا سب سے بڑا حصہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ آج اگر پاکستان امریکہ کی خوراک، تیل اور بارود کی رسدبند کر دے، امریکہ کو انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا بند کر دے تو امریکہ کے لیے اپنے آپ کو خطے میں برقرار رکھنا ممکن نہیں۔

جہاں تک اس حقیر غلامانہ سوچ کا تعلق ہے کہ امریکی امداد کے بغیر پاکستان اپنے معیشت نہیں چلا سکتا،تو یہ محض دھوکہ ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے جسے استعماری پالیسیوں کے ذریعے کمزور رکھا گیا ہے تاکہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی مانند پاکستان کا انحصار بھی مغرب پر ہو اور امریکہ اور دیگر استعماری طاقتیں امداد کے عوض اپنے مطالبات منوا سکیں۔ کیری لوگر بل اس کی حالیہ مثال ہے جس میں پاکستانی حکومت کو محض امداد کا 2.8% فراہم کیا جائیگا جبکہ امریکی NGOs امداد کا 92% حاصل کریں گی۔ اگر آج پاکستان استعماری معاشی پالیسیوں کو خیر باد کہہ دے اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کر لے تو وہ قلیل عرصے میں دنیا کی مضبوط ترین معیشت بن سکتا ہے۔

جہاں تک اس فتنے کی جنگ میں الیکٹرانک میڈیا کے کردار کا تعلق ہے, تو الیکٹرانک میڈیا کی اکثریت نے اس امریکی جنگ کی حمایت میں رائے عامہ بنانے کے لئے نہایت ہی جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ یہی نہیں بلکہ وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کا مکمل بلیک آوٹ کیا گیا تاکہ امت کو ان کی حالتِ زار کا علم نہ ہو سکے۔ جبکہ اسی میڈیا نے کوڑے مارے جانے والی پرانی فلم بغیر تحقیق کئے چلا دی تھی جس نے سوات آپریشن کے لئے رائے عامہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہم میڈیا کے نمائندوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی اسلامی ذمہ داری کو پہچانیں اور امت کے ساتھ مل کر امریکہ کو خطے سے نکالنے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کریں۔

جہاں تک ان آپریشنوں کے نتائج کا تعلق ہے تو گذشتہ سوات آپریشن کے بھیانک نتائج پاکستان کے مسلمانوں کے سامنے ہیں، اِس آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، متعدد بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا بے دریغ قتل کیا گیا اور ان کے گھر، بازار اور سڑکیں تباہ کر دی گئیں اور حکومتِ پاکستان نے اس تمام کو کڑوی گولی قرار دے کر یہ دعویٰ کیا کہ اگر عوام بس ایک مرتبہ یہ ”قربانی“ دے دیں تو پھر ہم علاقہ دہشت گردوں سے پاک کر کے مکمل اور دیر پا امن حاصل کر لیں گے۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ عوام کا اربوں روپے کا نقصان کر کے مالاکنڈ میں امن قائم کرنے کے بجائے اسے کرفیو لگا کر ایک ”میگا جیل“ کا روپ دے دیا گیا ہے جس میں عوام بھوکے پیاسے بِلک رہے ہیں۔ ان کے باغات اور فصلیں تباہ کرنے کے باوجود نہ توتمام ”دہشت گرد“ پکڑے گئے اور نہ ہی مارے گئے بلکہ وہ دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے جبکہ علاقے میں بم دھماکوں کی شکل میں انتشار ابھی بھی برقرار ہے۔ ایسے میں اس فتنے سے نکلنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم امریکہ کے بچھائے اس جال میں مزید پھنسنے کے لئے کوئٹہ اور جنوبی پنجاب میں مزید فوجی آپریشن کریں۔ کیا ہم ”دہشت گردوں“ کے تعاقب میں پورے پاکستان میں آپریشن کے نام پر لڑاکا طیاروں سے گولے برسائیں گے؟ آخر یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟ خطے میں امریکہ کے آنے سے قبل یہ انتشار موجود نہ تھا اور امریکہ کے خطے سے انخلاء کے ساتھ ہی یہ انتشار بھی ختم ہو گا اور دہشت گردی اپنی موت آپ مر جائیگی۔

یہ ہے اس فتنے کی جنگ کا حقیقی پس منظر، جس میں امریکہ نے ان غدار حکمرانوں کے ذریعے پاکستانی فوج کے مسلمانوں کو دھکیل دیا ہے, جس میں مارنے والا بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان! اور جس کا مقصد خطے میں امریکی راج کو برقرار رکھنا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان پر امریکی راج کو خاموشی سے مستحکم کرنے کے لئے یہ غدار حکمران امت کو بجلی، چینی، گیس، آٹا جیسے مختلف مصنوعی بحرانوں میں پھنساتے رہتے ہیں تاکہ انہیں کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملے۔

یہ امر نہایت افسوس کن ہے کہ اس فتنے کی جنگ کو بھڑکانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ بڑی اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت بھی برابر کی شریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی موجودگی اور استعماری نظام کے جڑ سے خاتمے کی بجائے ان کی گفتگو اور سرگرمیوں کا مرکز و محور مشرف کا ٹرائل، سترہویں ترمیم، جسٹس ڈوگر کیس، مائنس ون، مائنس ٹو فارمولا، مڈ ٹرم الیکشن اور دیگر بے مقصد ایشوز ہوتے ہے۔ اوریہ اپوزیشن پارٹیاں چیف جسٹس کو بحال کرنے کے لیے تو عوام کو متحرک کرتی نظر آتی ہیں لیکن پاکستان سے امریکی اڈوں کے خاتمے, امریکہ کو رسد کی فراہمی اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی گھنانی سرگرمیوں کے خاتمے حتیٰ کہ ڈرون حملوں خلاف بھی عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے تیار نہیں۔

جب مشرف نے پاکستان کے اندر فوجی آپریشنوں کا آغاز کیا تھا تو اسی وقت حزب التحریر نے امت کو پمفلٹ کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ: ”موجودہ آپریشن کا مقصد امریکی مفادات کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں" نیز یہ آپریشن پاکستان کے مفاد کو پورا کرنے کی بجائے پاکستان کو تباہی کے دہانے کی طرف لے جائے گا“۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ آج پاکستان ان فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ سوات آپریشن کے دوران حزب نے ایک بار پھر عوام کو خبردار کیا تھا کہ دہشت گردی کا خاتمہ محض ایک بہانہ ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ عسکریت پسندوں کی آڑ میں خطے کے عوام کے ساتھ جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ آج وزیرستان کے عوام کے ساتھ بھی یہی کھیل دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ عوام حکومت کو سوات میں قتل عام کرنے کے بعد وزیرستان آپریشن جیسی غلطی دہرانے سے روکیں۔ حالات کا مشاہدہ کرنے والا صاف دیکھ سکتا ہے کہ جیسے ہی حکومت نے وزیرستان آپریشن کی ٹھانی شہری علاقوں میں یکا یک بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور اب جگہ جگہ بم دھماکے اس آپریشن کے لئے رائے عامہ برقرار رکھنے کے لئے کئے جارہے ہیں۔ آنے والی شدید سردی کے موسم میں لاکھوں بے گھر مسلمان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔ اس امریکی صلیبی جنگ کے دوران ہزاروں نہیں تو کم ازکم سینکڑوں مسلمان لقمہ اجل بن جائیں گے۔ عوام کو اس ظلم کو روکنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ امت کو خلافت کے قیام کے ذریعے امریکہ کو خطے سے نکالنے کے لئے متحرک ہونا ہوگا۔

ہم اپنے قبائلی مسلمان بھائیوں کو بھی یہ نصیحت کرنا چاہیں گے کہ وہ اپنی صفوں میں سے خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کو نکال باہر کریں جو ان کی توجہ افغانستان میں امریکی فوجیوں سے ہٹا کر پاکستان کے نہتے عوام اور ان کی فوج کی طرف مبذول کروا رہے ہیں۔ بے شک مسلمان کو عمداً قتل کرنا سراسر حرام ہے۔ ایسے میں پاکستان کے شہروں میں بم دھماکوں کا کوئی شرعی جواز نہیں چاہے وہ عام شہری کے خلاف ہو یا کسی سیکورٹی آفس یا فوجی بیرک پر۔ قبائلیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس قسم کے واقعات کے ذریعے امریکہ نہ صرف اپنے خلاف ہونے والے جہاد کو عوام کی نظر میں بدنام کرتا ہے بلکہ ملک کو انتشار میں پھنسا کر اپنا تسلط مضبوط کرتاہے۔ ہم اپنے قبائلی بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف کاروائیاں تیز کر دیں تاکہ امریکہ کو خطے سے نکالنے میں مدد مل سکے جو اس فتنے کی جنگ کی اصل وجہ ہے۔

ہم فوج میں اپنے مسلمان بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ وہی قبائل نہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر روس کو اس خطے سے نکالا تھا؟! جو آپ سے محبت کرتے تھے اور آپ ان کی قدر کرتے تھے! تو آخر کیا وجہ ہے کہ یکایک آپ دونوں آپس میں دست و گریباں ہیں؟ یقینا یہ امریکہ کے اس خطے میں آنے اور آپ پر مسلط امریکی ایجنٹ حکمرانوں کی غداری کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کو اس امریکی جنگ کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام کسی بھی طور اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا )النساء: 93(

”اور جو کوئی ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی جزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے۔ اور تیار ہے اس کے لئے عذابِ عظیم“۔النساء: 93

ہماری فوج کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ گناہ پر مبنی کام میں اپنے قائدین اور حکمرانوں کی اطاعت کرنا شرعاً حلال نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا طاعة لمخلوق فی معصیة اللہ

”کسی ایسے کام میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں جو گناہ پر مبنی ہو“۔

جبکہ یہ گناہ تو ایسا ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے آتشِ جہنم میں ہمیشہ کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔

بلاشبہ پاکستان کے حکمرانوں نے امت کے تما م تر وسائل کو آپ کے اولین دشمن کے مفادات کی تکمیل کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ یہ حکمران ہی ہیں جو امریکہ کی طاقت اور خطے میں امریکہ کی موجودگی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ انہی کے ذریعے امریکہ آپ کو کنٹرول کرتا ہے اور اپنے مقاصد کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔ اور یہ امریکی استعمار سے نجات کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہیں لہٰذا انہیں ہٹانا فوج اور امت میں موجود ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مزید برآں موجودہ جمہوریت نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے کہ آمر ہو یا جمہوری حکمران، اس سرمایہ دارانہ نظام میں دونوں امریکہ ہی کی چاکری کرتے ہیں۔ پس پاک فوج پر لازم ہے کہ وہ ان حکمرانوں اور اس نظام کو اکھاڑ نے اورخلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرت دیں۔ وہ خلافت جس کے تحت مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کی بجائے خطے سے امریکہ کی موجودگی کا خاتمہ کریں گے۔ اورپھر اس کار خیر میں فوج کے ساتھ نہ صرف قبائلی بلکہ پورے پاکستان کے مسلمان ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔

---------------------------------------------------


Pakistani Government k nakhreee

Click here for complete Articale